عمران ٹکر
حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا میں کئی افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں، جو ہماری سماجی، اخلاقی اور قانونی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ مختلف اضلاع میں پیش آنے والے ان ہولناک واقعات نے ہر باشعور فرد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ ہماری سمت کیا ہے اور یہ بگاڑ کہاں جا کر رُکے گا؟
یہ سانحات نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ ایک ایسے معاشرتی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں جو وقت کے ساتھ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
صوابی کے ایک یتیم خانے میں کمسن بچے پر اساتذہ کا بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا، لیکن سوال یہ ہے کہ تعلیمی اور فلاحی اداروں میں بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟
پشاور کے نواحی علاقے میں ایک کم عمر بچے نے چاقو کے وار سے دوسرے بچے کو قتل کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک معصوم ذہن میں اتنی شدت اور سفاکیت کیوں اور کیسے پیدا ہوئی؟ کیا ہمارا معاشرتی ماحول تشدد کو فروغ دے رہا ہے؟ اور اس بچے کے ارد گرد کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو اسے روک سکتا؟
نوشہرہ میں ایک نومولود بچی کو زندہ دفن کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے ریسکیو 1122 نے بروقت کارروائی کرکے بچی کی جان بچا لی۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھی بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور انہیں خوف یا شرم کے باعث قتل کیا جاتا ہے۔
بنوں کے ایک سرکاری اسکول میں استاد کے تشدد سے ایک معصوم طالبعلم کی ہلاکت نے جسمانی سزا کے خطرناک نتائج اور تعلیمی اداروں میں نگرانی کے فقدان کو اجاگر کیا ہے۔
صوابی میں ایک شخص نے اپنے چار بچوں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔ یہ واقعہ ذہنی دباؤ، غربت یا کسی اور المیے کا نتیجہ تھا؟ حکومت اور معاشرہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا پر اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث جاری ہے۔
چارسدہ میں ایک خواجہ سرا کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا، حالانکہ یہ برادری پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ کیا ریاست انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے؟ اور ہمارا معاشرہ کب تک ان کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریز کرتا رہے گا؟
یہ صرف جرائم کی فہرست نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی، نفسیاتی اور قانونی ڈھانچے کی تباہی کا واضح ثبوت ہیں۔
یہ مسائل صرف ان متاثرہ خاندانوں کا نہیں، بلکہ پوری قوم کے لیے ویک اپ کال ہیں۔ اگر ہم نے ان پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو آنے والے دنوں میں ایسے واقعات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ آیا ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں انسانیت سوز مظالم معمول بن جائیں، یا پھر ہمیں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھ کر ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
اب وقت ہے کہ ہم سنجیدہ مکالمہ کریں، عملی اقدامات کریں اور ایک محفوظ، پرامن اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے متحد ہوں۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو کل شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے: ضلع بٹگرام سے پی ٹی آئی کی صوابی جلسے کی تیاریاں عروج پر