پاکستان میں صحافت ایک مشکل اور نازک پیشہ رہا ہے، جہاں سچ کی تلاش میں کئی صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن کو ایک شہید صحافی، ارشد شریف کے نام سے منسوب کرنے کے صوبائی حکومت کے فیصلے نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس فیصلے کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر تحقیقی نظر ڈالیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا یہ ایک دانشمندانہ اقدام ہے یا محض ایک سیاسی فیصلہ۔
"ارشد شریف” کی شہادت اور صحافتی خدمات
ارشد شریف پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافی اور اینکر تھے۔ ان کی صحافتی زندگی میں کئی اہم انکشافات اور تحقیقاتی رپورٹنگ شامل رہی، تاہم ان کی سیاسی وابستگی اور مخصوص بیانیے کی حمایت کی وجہ سے انہیں ایک متنازعہ صحافی بھی سمجھا جاتا تھا۔ اکتوبر 2022 میں ان کا کینیا میں قتل ہوا، جس پر پورے ملک میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور ان کی شہادت کے حوالے سے کئی نظریات سامنے آئے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہیں صحافت میں ان کی خدمات کی بنیاد پر خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے لیے موزوں ترین شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے؟
تحقیقی جائزہ: کسی ادارے کو کسی شخصیت کے نام سے منسوب کرنے کے معیارات
دنیا بھر میں تعلیمی ادارے اور ان کے مختلف شعبے انہی شخصیات کے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں جن کا اس فیلڈ میں غیر متنازعہ اور غیر معمولی کردار ہو۔ اگر ہم صحافت کے بین الاقوامی معیار کو دیکھیں تو کسی صحافتی ادارے یا ڈیپارٹمنٹ کو منسوب کرنے کے لیے درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے:
- صحافتی خدمات کی غیر متنازعہ حیثیت – متعلقہ صحافی کی خدمات عوامی مفاد، غیر جانبداری اور صحافتی اخلاقیات پر مبنی ہونی چاہئیں۔
- علاقائی یا قومی اثرات – کیا اس شخصیت کی خدمات کسی مخصوص علاقے یا قومی سطح پر صحافت کے فروغ کے لیے نمایاں رہی ہیں؟
- سیاسی وابستگی یا تنازعہ – اگر کوئی صحافی کسی مخصوص سیاسی جماعت یا نظریے سے جڑا رہا ہو، تو اس کے نام سے کسی تعلیمی ادارے کو منسوب کرنا ایک متنازعہ فیصلہ بن سکتا ہے۔
- تحقیقی اور علمی تعاون – کیا اس صحافی نے تحقیقی جرنلزم، تربیتی پروگرامز، یا میڈیا کے تعلیمی اداروں کے ساتھ کوئی عملی تعاون کیا؟
اگر ان نکات کو مدنظر رکھا جائے تو ارشد شریف کی صحافتی خدمات، چاہے جتنی بھی اہم رہی ہوں، لیکن ان کی سیاسی وابستگی اور متنازعہ حیثیت انہیں اس اعزاز کے لیے ایک غیر موزوں انتخاب بنا سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے مقامی شہید صحافیوں کو نظر انداز کرنا؟
خیبرپختونخوا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں دہشت گردی، انتہا پسندی، اور جنگی حالات کی کوریج کرتے ہوئے درجنوں صحافیوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ اگر صوبائی حکومت واقعی صحافیوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنا چاہتی ہے، تو بہتر ہوگا کہ ان صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے جنہوں نے میدانِ صحافت میں جان کا نذرانہ دیا ہے۔
یہاں میں ایک ایک کا نام لوں تو مناسب نہیں ہوگا، ساتھ ایسے صحافی بھی ہیں جو اب تک ہم میں نہیں رہے البتہ دنیا میں ایک بہترین مقام اور نام رکھنے والے صحافیوں میں شامل ہیں، جن سب کا ہمیں علم ہیں۔۔۔
اگر حکومت کو واقعی آزادی صحافت اور قربانیوں کا اعتراف کرنا ہے، تو ان بہادر صحافیوں کے نام پر ڈیپارٹمنٹ کے بلاکس، ہالز، ڈیجیٹل اسٹوڈیوز، یا لائبریریوں کو منسوب کیا جا سکتا ہے۔
—
صحافت اور سیاست کا اختلاط: ایک خطرناک روایت؟
یہ فیصلہ پاکستان میں صحافت اور سیاست کے بڑھتے ہوئے تعلق کی ایک مثال ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف حکومتیں اپنے پسندیدہ صحافیوں کو نوازتی رہی ہیں، جس سے صحافت کی غیر جانبداری متاثر ہوئی ہے۔
اگر حکومت واقعی صحافت کے ساتھ مخلص ہے، تو اسے چاہئے کہ وہ آزاد اور غیر جانبدار صحافت کے فروغ کے لیے اقدامات کرے، نہ کہ کسی ایک مخصوص بیانیے سے منسلک صحافی کو سرکاری اعزاز سے نوازے۔
—
نتائج اور سفارشات
اس تحقیق سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:
- ارشد شریف کی شہادت ایک قومی سانحہ ہے، لیکن ان کی متنازعہ حیثیت انہیں پشاور یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک غیر موزوں شخصیت بناتی ہے۔
- خیبرپختونخوا میں کئی مقامی صحافیوں نے آزادی صحافت کے لیے جان دی ہے، ان کے ناموں کو فوقیت دی جانی چاہیے۔
- حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی فیصلوں کے بجائے تعلیمی اداروں کے نام رکھنے کے لیے شفاف اور غیر جانبدارانہ اصول اپنائے۔
- صحافت کو سیاست سے الگ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے فیصلے کسی مخصوص حکومت یا پارٹی کے دباؤ میں نہ کیے جائیں۔
نتیجہ
پشاور یونیورسٹی کے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کو کسی شہید صحافی کے نام سے منسوب کرنا ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے کسی غیر متنازعہ، غیر جانبدار، اور مقامی صحافی کا انتخاب ہونا چاہیے، نہ کہ کسی ایسی شخصیت کا جو ایک مخصوص سیاسی بیانیے سے جڑی ہو۔
حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ خیبرپختونخوا میں شہید ہونے والے ان گمنام ہیروز کی خدمات کو تسلیم کرے جو واقعی آزادی صحافت کے علمبردار تھے، اور ان کے نام پر بلاک، ہال یا ڈیجیٹل میڈیا سینٹر بنائے تاکہ نوجوان صحافی ان کے نقشِ قدم پر چل سکیں۔