تحریر: تحسین اللہ تاثیر
دنیا تیزی سے ایک نئے دور کی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے جہاں ہتھیاروں کی جگہ اب ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ اب جنگ صرف میدانوں میں نہیں بلکہ خلائی سیٹلائٹس، سائبر سسٹمز اور جدید دفاعی ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔ اس نئی صف بندی میں مغربی طاقتیں اور چین آمنے سامنے ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا — خاص طور پر پاکستان اور بھارت — اس بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کا مرکز بن چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جدید دور میں اصل قوت عسکری نہیں بلکہ تکنیکی برتری ہے۔
بھارت، جو کہ مغربی طاقتوں کے سہارے میدان میں اترا تھا، حیران کن طور پر شکست سے دوچار ہوا۔ اس کے پاس فرانس کے رافیل طیارے، اسرائیل کے ڈرونز، اور روس کا جدید ترین ایس-400 ائیر ڈیفنس سسٹم موجود تھا، مگر یہ سب کچھ پاکستان اور چین کی مشترکہ دفاعی ٹیکنالوجی کے سامنے بے اثر ثابت ہوا۔ اس ناکامی نے دنیا بھر میں ایک سوال پیدا کر دیا ہے: کیا واقعی مغربی ٹیکنالوجی ناقابل شکست ہے، یا اب دنیا کو ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے؟
یہ شکست صرف بھارت کی نہیں تھی۔ دراصل یہ ان تمام طاقتوں کے لیے ایک دھچکہ تھا جنہوں نے بھارت کو جدید عسکری ٹیکنالوجی فراہم کی تھی۔ امریکہ، فرانس، اسرائیل اور روس جیسے ممالک نے جس اعتماد کے ساتھ اپنی مصنوعات بھارت کو مہیا کیں، وہ اب اس بات پر غور کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کی ٹیکنالوجی کو آخر پاکستان اور چین کی جانب سے کیسے مؤثر چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ناکامی کا سیاسی اثر بھارت میں فوراً محسوس کیا گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ آر ایس ایس جیسے سخت گیر گروہوں پر عوامی دباؤ بڑھا ہے کہ پاکستان کے خلاف محاذ کو زندہ رکھا جائے تاکہ عوامی حمایت دوبارہ حاصل کی جا سکے۔ لیکن دوسری طرف مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل، اس بات سے سخت نالاں ہیں کہ ان کی اربوں ڈالر کی ٹیکنالوجی نہ صرف بے اثر ثابت ہوئی بلکہ مشرقی بلاک کی طرف سے اسے مات دے دی گئی۔
صورتحال بتا رہی ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان اور بھارت کو ایک بار پھر بڑی طاقتوں کی پراکسی جنگوں میں جھونکا جا سکتا ہے۔ مگر اس بار لڑائی گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، ڈرون، سائبر حملوں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے لڑی جائے گی۔ یہ نئی جنگ نہ صرف عسکری میدان بلکہ بین الاقوامی تعلقات، معیشت اور قومی سلامتی کے توازن کو بھی بدل کر رکھ دے گی۔
اب عالمی تجزیہ کاروں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان اور چین نے صرف دفاعی سطح پر ترقی نہیں کی، بلکہ انہوں نے اس سوچ کو بھی تبدیل کر دیا ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی ہی ہر حال میں برتر ہوتی ہے۔ اس کشیدگی نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی طاقت کا توازن اب تبدیل ہو رہا ہے، اور مشرقی دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔
دنیا کو اب خود سے یہ سوال پوچھنا ہوگا: کیا ہم ایک نئے ٹیکنالوجی ورلڈ وار کی دہلیز پر کھڑے ہیں؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: گلیشیئر جھیلیں پھٹنے کا خدشہ، پی ڈی ایم اے کا حساس اضلاع کو الرٹ جاری