تحریر: ناصر حسین
ہلاک یا شہید؟
ملک بھر میں حالیہ واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چل رہی ہے کہ میڈیا کے ادارے خاص طور پر بین الاقوامی پلیٹ فارمز تشدد یا تنازعات، دھم اکوں میں ہلاک ہونے والوں کو ‘شہید’ کی بجائے ‘ہلاک’ کیوں قرار دیتے ہیں؟ اس سوال کا مرکز یہ اعتراض ہے کہ ‘شہید’ کا لفظ متاثرین کے مقصد یا قربانی کو تسلیم کرتا ہے، جبکہ ‘ہلاک’ ایک غیرجانبدار اصطلاح ہے جو ان کے موت کے پیچھے کے تناظر، عقیدے، یا جدوجہد کو نظرانداز کرتی ہے۔ تاہم میڈیا اداروں کا مؤقف ہے کہ وہ غیر جانبدار رپورٹنگ کے اصولوں پر کاربند ہیں جہاں خبروں کا مقصد کسی بھی واقعے کو ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر پیش کرنا ہے، نہ کہ جذباتی یا نظریاتی تشریحات کو اُبھارنا۔
کئی صارفین کی جانب سے یہ سوال درست بھی ہے لیکن ایسا نہ کرنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔
غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ اصول
بین الاقوامی میڈیا کے ادارے اکثر غیر جانبدار رپورٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہید یا جاں بحق جیسے الفاظ کسی خاص مذہبی، سیاسی، یا سماجی نظریے کی عکاسی کرتے ہیں جو میڈیا کے اصولِ غیرجانبداری کے خلاف ہو سکتا ہے۔ ان اصطلاحات کے بجائے ہلاک جیسے عام الفاظ استعمال کرکے وہ واقعات کو بغیر کسی تعبیر یا جذباتی رنگ کے پیش کرتے ہیں۔
مذہبی اور لسانی حساسیت
شہید کا لفظ خاص طور پر اسلامی(یا کسی بھی مذہبی) تشریح و تاریخ سے وابستہ ہے جبکہ بین الاقوامی میڈیا کا ہدف عوامی سطح پر متنوع سامعین تک پہنچنا ہوتا ہے۔ وہ ایسے الفاظ سے گریز کرتے ہیں جو کسی ایک مخصوص تشریح یا مذہب کو نمایاں کریں یا جن کی تشریح متنازعہ ہو سکے۔
حقائق پر مبنی رپورٹنگ
میڈیا کے لیے بنیادی ذمہ داری واقعات کو ثبوت اور تصدیق شدہ معلومات کی بنیاد پر بیان کرنا ہے۔ شہید جیسی اصطلاح کسی فرد کی موت کے پیچھے کے مقصد یا نیت کو بیان کرتی ہے جو اکثر ثبوتوں سے بالاتر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی تنازعے میں مرنے والے شخص کو ایک گروہ شہید قرار دے سکتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اسے دہش ت گر د کہہ سکتا ہے۔ میڈیا ایسے بیانیوں میں پھنسنے سے بچنے کے لیے غیر جانبدار زبان استعمال کرتا ہے۔
قانونی اور اخلاقی پہلو
بعض ممالک یا تنظیمیں شہید جیسے الفاظ کو سیاسی یا فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ میڈیا ادارے اکثر ان اصطلاحات کے غلط استعمال یا تشہیر سے بچنے کے لیے محتاط رہتے ہیں تاکہ کسی فریق کی طرفداری کا شائبہ نہ پیدا ہو۔
ادارہ جاتی پالیسیاں
بڑے اداروں کے پاس رپورٹنگ سے متعلق واضح رہنما اصول (Editorial Guidelines) ہوتے ہیں جن میں متنازعہ اصطلاحات کے استعمال پر پابندی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بی بی سی کی پالیسی کے مطابق شہید جیسے الفاظ صرف تب استعمال کیے جاتے ہیں جب یہ کسی براہِ راست اقتباس یا مخصوص تناظر کا حصہ ہوں ورنہ غیر جانبدار زبان ترجیح دی جاتی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کا مقصد واقعات کو ایسے بیان کرنا ہوتا ہے جو تمام پڑھنے یا سننے والوں کے لیے قابل قبول ہو، پھر چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، ثقافت، یا سیاسی نظریے سے ہو۔ اس لیے وہ ایسی اصطلاحات سے پرہیز کرتے ہیں جو کسی ایک گروہ کی جانبدارانہ تشریح کو تقویت دے سکیں۔
بین الاقوامی میڈیا اداروں کا ہلاک جیسے غیر جانبدار الفاظ استعمال کرنے کا طریقہ کار ان کی پیشہ ورانہ اصولوں، ثقافتی و مذہبی حساسیت، اور غیر جانبدار رپورٹنگ کی پالیسیوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ بحث اس سے قبل بھی کئی بار ہوتی رہی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر بحث ایسے موقعوں پر ہوتی ہے جہاں مذہبی طور پر زاویہ شامل ہو جیسے:
جب اسرائیلی فوجی کارروائی میں فلسطینی مارے جاتے ہیں تو کئی ادارے انہیں ہلاک یا ‘ماریں گئے’ لکھتے ہیں جبکہ مقامی یا کچھ عرب میڈیا انہیں ‘شہید’ کہتے ہیں۔ 2021 کی غزہ جنگ کے دوران بی بی سی نے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو "Palestinians killed in Israeli airstrikes” (اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینی) کے طور پر رپورٹ کیا جبکہ فلسطینی میڈیا نے انہیں ‘شہدائے غزہ’ قرار دیا۔
اسی طرح جب بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کشمیری نوجوان ہلاک ہوتے ہیں تو کئی ادارے انہیں ہلاک یا مقتول لکھتے ہیں جبکہ مقامی میڈیا اکثر ‘شہید’ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 2016 میں برہان وانی کے قتل پر کئی اداروں نے "Burhan Wani killed in encounter” (جھڑپ میں برہان وانی ہلاک) کی ہیڈ لائن استعمال کی جبکہ مقامی اخبارات نے ‘شہید برہان وانی’ لکھا۔
یوں بین الاقوامی میڈیا کے سامعین مختلف مذاہب، ثقافتوں، اور نظریات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر ایرانی میڈیا نے انہیں ‘شہید’ قرار دیا، جبکہ مغربی میڈیا نے "ایرانی کمانڈر کا قتل” یا "Qasem Soleimani killed in US strike” جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔
2023 میں پاکستان میں سیاسی احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کو ‘پولیس فائرنگ میں ہلاک’ لکھا گیا جبکہ کچھ مقامی چینلز نے ‘شہید’ کا لفظ استعمال کیا۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی ہلاکتوں کو بین الاقوامی میڈیا نے ہلاک یا قتل لکھا، جبکہ مقامی میڈیا نے انہیں دہشت گرد قرار دیا۔ 2021ء میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یا اس سے پہلے بین الاقوامی اداروں میں سے کئی اداروں نے امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کو بھی ‘ہلاک’ ہی لکھا، جبکہ کچھ مغربی میڈیا نے انہیں ‘ہیروز’ کہا۔
میڈیا کے ادارے اپنی رپورٹنگ میں جذبات کی بجائے حقائق کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی مقصد عوامی معلومات کو غیر جانبدار، تصدیق شدہ، اور قابل اعتماد بنیادوں پر فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہ ادارے خبروں کے انتخاب اور پیشکش کے دوران مخصوص اصولوں پر عمل کرتے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ واقعات کو ان کی خام حالت میں پیش کیا جائے، بغیر کسی مذہبی، سیاسی، یا جذباتی رنگ آمیزی کے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہر بار کسی اصول کی ہی پیروی کی جاتی ہے۔ کئی بار تو اس کے پیچھے مضمر مقاصد بھی ہوتے ہیں جن میں وہ ایک فرقی کو ڈبے لفظوں میخ دہشت گرد یا ظالم ٹھہراتے کی کوشسمش کرتے ہیں لیکن عموماً ایسے معاملات میں اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے۔
ایڈیٹ:
جان بحق جیسی اصطلاحات سے بھی گریز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ لفظ بھی غیر جانبدار رپورٹنگ کے اصولوں کے خلاف جا سکتا ہے۔ جان بحق کا مطلب ہے ‘حق کے لیے قربان ہونا’ یا ‘ناحق مارا جانا’۔ یہ اصطلاح کسی موت کے پیچھے کے تناظر یا نیت کو بیان کرتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی فوجی آپریشن میں مارا جاتا ہے، تو ایک گروہ اسے جان بحق(ناحق قتل) کہے گا جبکہ دوسرا گروہ اسے دہشت گرد قرار دے گا۔ میڈیا کسی ایک بیان کو اخبارات کا حصہ نہیں بنانا چاہتا بلکہ مجموعی تاثر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مفتی منیر شاکر کی مسجد میں دھماکہ، مفتی منیر شاکر شہید ہو گئے