کالم

پشاور کے مضافاتی اسکولوں میں تدریسی عملہ: حکومت کی ذمہ داری کیا؟

صوبائی دارالحکومت اور سب سے بڑے ضلع پشاور کے چھ سرکاری اسکولوں میں صرف ایک استانی تعینات ہے

تحریر: عمران ٹکر

پشاور کے ایک سینئر صحافی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انکشاف کیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت اور سب سے بڑے ضلع پشاور کے چھ سرکاری اسکولوں میں صرف ایک استانی تعینات ہے، جبکہ ان اسکولوں میں طالبات کی مجموعی تعداد 600 سے زائد ہے۔

اگرچہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ 11 سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے، اور وہ مسلسل دعویٰ کرتی آئی ہے کہ تعلیم، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم، اس کی اولین ترجیح ہے، لیکن ان اسکولوں کی حالت زار اس دعوے کے برعکس تصویر پیش کرتی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا ہمیشہ یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کو فوقیت دی ہے اور اس پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اسی سلسلے میں حالیہ انٹرویو میں صوبائی وزیر تعلیم فیصل ترکئی کا کہنا تھا کہ حکومت خیبرپختونخوا معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے پرعزم ہے اور اس سلسلے میں گرلز سکولوں میں سہولیات کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات جاری ہیں۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ صوبے میں گرلز ایجوکیشن پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں نئے بننے والے سکولوں میں 70 فی صد خواتین کیلئے مختص ہیں۔

ان سب وعدوں کے باوجود تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ صوبہ میں عملی طور پر اب بھی کئی اسکولوں میں بنیادی تدریسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

اسی طرح خیبر پختونخوا میں اندازاً 40 سے 45 لاکھ بچے مختلف وجوہات کی بنا پر اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں تقریباً 60 فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اسکول نہ جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ تدریسی عملہ کی کمی بھی ہے۔

چونکہ مذکورہ چھ اسکولوں کی نشاندہی پشاور کے مضافاتی علاقوں میں ہوئی ہے، اس لیے سب سے پہلے صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حقیقت کا جائزہ لے کہ آیا واقعی ایسا ہی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو فوری طور پر ان اسکولوں کو تدریسی عملہ بھی فراہم کیا جائے۔ اور جائزہ بھی لیا جائے کہ اس کے وجوہات کیا ہیں، جبکہ ذمہ داران سے جوابدہی طلب کی جائے۔

ویسے بھی، یہ ایک حقیقت ہے کہ پشاور کے مضافاتی علاقوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ اکثر خواتین شہری علاقوں میں تعیناتی کو ترجیح دیتی ہیں۔

حکومت خیبر پختونخوا نے حال ہی میں 16 ہزار نئے اساتذہ بھرتی کرنے کا عمل شروع کیا ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ عمل صاف و شفاف طریقے سے جلد مکمل ہوگا۔ نئی تعیناتی کے دوران ایسے اسکولوں کی نشاندہی ضروری ہے جہاں اساتذہ کی کمی سب سے زیادہ ہے، خصوصاً گرلز پرائمری اسکولوں میں۔
ساتھ ہی، حکومت کو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں اساتذہ کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے، وہاں سے ان اسکولوں میں تبادلہ (ٹرانسفر) کرکے تدریسی عملے کی قلت کو پورا کیا جائے۔ اگر ان مسائل کو فوری حل نہ کیا گیا تو ہزاروں بچیوں کی تعلیم کا مستقبل مزید خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

پشاور کے مضافاتی اسکولوں میں تدریسی عملہ: حکومت کی ذمہ داری کیا؟

یہ بھی پڑھیں: معاشرتی زوال یا حکومتی ناکامی؟ خیبرپختونخوا میں انسانیت سوز واقعات لمحہ فکریہ

ایڈیٹر

دی ناردرن پوسٹ پاکستان ایک ڈییجٹل میڈیا پلیٹ فارم ہے جو خاص کر شمالی پاکستان کی رپورٹنگ اور تحقیقاتی سٹوریز آپ تک لانے کیلئے کوشاں ہے۔ انسانی حقوق، ماحولیات، تعلیم، سماجی مسائل پر خصوصی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ More »

متعلقہ تحریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button