خصوصی فیچرز

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے آخری ملاقات کرنے والوں کے تاثرات کیا ہیں؟

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی قومی سلامتی اور غیرت کو ہر قسم کے لالچ پر ترجیح دی

تحریر: طارق بن نواز

28 مئی 1998 کی دوپہر، جب زمین ہلکی سی لرزی اور آسمان گواہ بنا — یہ وہ لمحہ تھا جب ایک قوم نے سر جھکانے سے انکار کیا، اور "اللہ اکبر” کی گونج میں دنیا کو اپنے عزم کا یقین دلایا۔ یہ دن "یومِ تکبیر” کہلایا، جب پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر دنیا کو باور کرایا کہ وہ اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

اس دن کو گزرے آج 27 سال ہو چکے ہیں۔ 1998 میں، جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑ چکا تھا۔ بھارت نے 11 اور 13 مئی کو پوکھران میں 5 ایٹمی دھماکے کیے اور خطے میں اپنی بالادستی کے خواب دیکھنے لگا۔ پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھا — امریکا، جاپان، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے ایٹمی تجربہ نہ کرنے پر زور دیا، اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں، اور بڑے مالیاتی پیکجز کی پیشکش بھی کی گئی۔

لیکن وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستان کی قومی سلامتی اور غیرت کو ہر قسم کے لالچ پر ترجیح دی، اور 28 مئی کو بلوچستان کے پہاڑوں میں چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی برتری کا خواب چکنا چور کر دیا۔ دو دن بعد، 30 مئی کو چھٹا دھماکہ کیا گیا، اور یوں پاکستان نے بھارت کے 5 دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔

عالمی منظرنامے میں پاکستان کی حیثیت

یومِ تکبیر کے بعد، پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی طاقت بن گیا — اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلامی دنیا کا پہلا اور واحد ایٹمی ملک ہے۔
آج تک دنیا کے صرف آٹھ ممالک کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے:
امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا۔
ان میں پاکستان واحد اسلامی ریاست ہے جس نے سائنس، ٹیکنالوجی اور عزم کی طاقت سے خود کو اس فہرست میں شامل کیا — یہ نہ صرف ایک دفاعی سنگ میل تھا بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھی فخر کا لمحہ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ ۔ایک عہد ساز شخصیت

یومِ تکبیر کی کہانی ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معمار تھے، جنہوں نے محدود وسائل، عالمی پابندیوں اور مسلسل خطرات کے باوجود پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔ اُن کی قیادت میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) نے یورینیم افزودگی کا ایسا کامیاب نظام قائم کیا جو جنوبی ایشیا میں طاقت کا نیا توازن لے آیا۔

مدثر چوہدری ایڈووکیٹ، جو کئی برسوں تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل رہے، اور زندگی کے آخری ایام میں ان کے ہمراہ تھے، ’’دی نادران پوسٹ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’ڈاکٹر صاحب ایک زندہ دل، ملنسار اور بے حد جذباتی انسان تھے۔ قوم سے سچی محبت رکھتے تھے۔ جس پر اعتبار کرتے، اس پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ ان کے دل میں پاکستان کا درد تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا خالق حقیقی سے جا ملنے سے پہلے ان کا آخری دورہ وزیرہ آباد کا ہوا ۔ اور انہوں آ آخری دنوں ایسا کچھ نہیں کہا جو بطور انکشاف ہو کیونکہ وہ بیمار تھے۔

سعید بدر سعید بدر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں ان کی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے ساتھ قریبی قربت اور مراسم رہا ہے۔ ’’دی نادران پوسٹ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا:

’’ڈاکٹر صاحب ایک نفیس اور شفیق شخصیت کے مالک تھے۔ 2012 میں میری تحقیقاتی کتاب خودکش بمبار کے تعاقب میں پر انہوں نے نہ صرف تبصرہ لکھا بلکہ اپنی تصویر پر دستخط کر کے میرے گھر بھی بھجوائی۔ وہ اس کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کے خواہش مند بھی تھے، مگر اس وقت انہیں اجازت نہ مل سکی۔‘‘

سعید بدر دی ناردرن پوسٹ کو ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے احوال بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ:

میری ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں کیونکہ اس زمانے میں وہ ایک طرح سے نظر بند تھے۔ ان سے ملنا یا رابطہ کرنا مشکل کام تھا، ان کے انٹریو کے بعد زیادہ رابطہ فون کالز اور ایس ایم ایس پر رہا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد جب ان کی ہایندیاں کم ہوئیں لیکن ان کی سکیورٹی کا ایشو بہر حال تھا اور ان کو بہت زیادہ سکیورٹی مہیا کی گئی تھی۔ یہ سمجھ لیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے زیادہ سکیورٹی ان کے ساتھ ہوتی تھی لیکن وہ سکیورٹی مزاج کے بندے نہیں تھے سادہ انسان تھے،

”لاہور میں ایک ہسپتال ان کے نام سے بنا تھا جہاں وہ آتے جاتے تھے۔ وہ یوم تکبیر کے حوالے سے مطمئن تھے، سیاست دنواں اور فوجی آمر پرویز مشرف سے مایوس تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ آیٹم بم ہم نے جنگ لڑنے کےلیے نہیں بلکہ یہ جنگ نہ ہونے کی ضمانت ہے۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے خطہ میں امن قائم ہوا ہے۔ وی ایٹمی پروگرام کا اصل سہرا ذوالفقار علی بھٹو اور غلام اسحاق خان کے سر باندھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹم بم بہت پہلے بنالیا گیا تھا لیکن باقاعدہ اعلان کئی سال بعد ہوا۔

ایک سوال کے جواب میں سعید بدر نے کہا کہ ان کی بیگم غیر ملکی تھیں، انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان جانے سے روکا کیونکہ بیرون ملک ان کا کیرئیر بہت شاندار تھا، تب وہ جوان تھے۔ وہ اس وقت جو تنخواہ چھوڑ کر آئے پاکستان میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ملنا تھا لیکن انہوں نے وطن کےلئے کمپرومائز کیا۔ انہوں نے پاکستان کےلیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا تھا اور ان کی بیگم نے اپنے شوہر کی خوشی کےلیے جو قربانیاں دیں وہ بھی بے مثال ہیں۔

سعید بدر کے مطابق ڈاکٹر صاحب اپنی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کو ایٹمی ملک بنانا سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جس طرح پاکستان میں اس پروجیکٹ پر کام ہورہا تھا یہ اگلے سو سال میں بھی ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا تھا، ایٹمی پروگرام کے نام پر بس فنڈز اور تنخواہیں لی جارہی تھیں۔ وہ آئے تو ان کے کام میں بھی رکاوٹیں ڈالی گئیں جس پر انہوں نے اس وقت کے وزیر عظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ وہ واپس جارہے ہیں کیونکہ یہاں اس ماحول میں کام ممکن نہیں جس پر بھٹو صاحب نے انہیں الگ ریسرچ لیبارٹری دے کر بااختیار بنا دیا اور انہوں نے پاکستان کو پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنادیا۔

یاد رکھنے کا دن، سرکاری سطح پر اعتراف

یومِ تکبیر نہ صرف قومی تاریخ کا سنگ میل ہے، بلکہ ریاستی سطح پر بھی اس دن کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ ہر سال 28 مئی کو ملک بھر میں سرکاری سطح پر تقریبات، سیمینارز، دعائیہ مجالس اور تقریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔
اس دن کو قومی غیرت، خود انحصاری اور سائنسی ترقی کی علامت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

یومِ تکبیر ہمیں صرف فخر ہی نہیں دیتا، بلکہ یہ عہد لینے کا دن بھی ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو فراموش نہیں کریں گے، ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے، اور اپنی خودمختاری کی حفاظت ہر قیمت پر کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا صارفین پاسورڈ تبدیل کریں، عالمی سطح پر صارفین کے پاسورڈ چوری کا انکشاف

ایڈیٹر

دی ناردرن پوسٹ پاکستان ایک ڈییجٹل میڈیا پلیٹ فارم ہے جو خاص کر شمالی پاکستان کی رپورٹنگ اور تحقیقاتی سٹوریز آپ تک لانے کیلئے کوشاں ہے۔ انسانی حقوق، ماحولیات، تعلیم، سماجی مسائل پر خصوصی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ More »

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button