کالم

خودکشی ایک نفسیاتی مسئلہ ہے

والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر باتیں کرنی چاہئے

زندگی کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ زندگی والے ہر لحاظ سے اپنی زندگی کا تحفظ کرتے ہیں۔ اپنی طبعی ساخت کے مطابق بھی انسانی وجود ہر ایسے عمل پر رد عمل ظاہر کرتا ہے جو انسانی وجود کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگ کبھی بھی اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ وجود کی عام بیماریوں جو زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہیں، ان کے ردعمل میں بھی انسانی وجود اس طرح کا بنا ہوتا ہے کہ بیمار انسان کی مدد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جب بھی ناک میں باہر سے کوئی خطرناک مواد داخل ہوتا ہے تو ناک دماغ کی مدد سے اس خطرے کا ردعمل بائیں شکل میں ظاہر کرتی ہے۔ پرنژی کا بنیادی میکانزم یہی ہے کہ ناک میں کوئی جراثیم یا مٹی وغیرہ داخل ہو چکی ہے اور ناک نہیں چاہتی کہ یہ مواد نیچے تنفسی دیگر اعضا میں داخل ہو، تو فوری طور پر پرنژی کی شکل میں ان مواد کو باہر نکالنے کی کوشش شروع کرتی ہے، اسی طرح کھانسی، چھینک وغیرہ بھی انسانی مددی عوامل میں شمار کی جا سکتی ہیں جن کی جڑیں دماغ کے ایک پیچیدہ اور مشکل نظام سے ہیں۔ میری یہ بات کہنے کا مقصد ہے کہ انسانی زندگی ہر زاویے سے اس کے وجود کے لئے اہم ہے اور ہر حال میں اس کا تحفظ کیا جانا چاہیئے۔ طب کا علم بھی اس بنیادی نکتے کی بنیاد پر آج کے جدید میڈیکل سائنس تک پہنچا ہے کہ انسانی زندگی کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اس بحث سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیوں کچھ لوگ پھر اپنے ہاتھوں اپنی زندگی چھین لیتے ہیں اور خودکشی کرتے ہیں۔
خودکشی کی تعریف:
ہر ایسا عمل جس میں ایک انسان اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لئے اقدام کرتا ہے، خودکشی کہلاتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ لوگوں کی خودکشی ہوتی ہے۔
بہت سے مریض جان بوجھ کر زیادہ مقدار میں اپنی دوا لیتے ہیں تاکہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اسی طرح دوا یا زہر لینے کے علاوہ کئی دیگر طریقے بھی خودکشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ خودکشی یا خودکشی کے تمام موتوں کا ایک فیصد بناتی ہے۔ یہ بچوں میں کم اور نوجوانوں اور لڑکیوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مردوں میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ واقعات دیکھے گئے ہیں۔
خودکشی کا خطرہ
جو لوگ خودکشی کرتے ہیں اور اس کی کوشش موت پر ختم ہوتی ہے، وہ اس بات کو مکمل راز میں رکھتے ہیں اور تمام احتیاطی تدابیر استعمال کرتے ہیں۔ آٹھ میں صرف ایک مریض ایک خط چھوڑتا ہے۔ زیادہ تر کیسوں میں ایسے لوگ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ اس عمل کا ذکر کرتے ہیں، جس کے لئے عزیز اور دوستوں کو ایسی قسم کی تشویش کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ لوگ دراصل مدد طلب کرتے ہیں تو اسمرحلے میں قریب ترین لوگوں کو مریض کو چیلنج نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سنیں اور ان کی مشکل سے خود کو آگاہ کریں۔ یہ وہ مرحلہ اور نکتہ ہے جہاں ہم ایک انسان کی زندگی بچا سکتے ہیں۔ اکثر دوست اور عزیز اس نکتے میں مریض کو چیلنج کرتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ رویہ غلط ہے بلکہ یہی نکتہ ہے جس سے ہم زندگی دوبارہ بچا سکتے ہیں؛ اس موقع پر مریض کی ایسی تشویش اور اظہار کو ایک ایمرجنسی عمل کی طرح سلوک کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئیے۔
خودکشی کے اسباب
————————
خودکشی کے کئی وجوہات اور علتیں ہو سکتی ہیں میں اسے پڑھنے والوں کی آسانی کے لئے بڑی بڑی وجوہات اور علتوں کو نمبر وار لکھتا ہوں تاکہ عام قاری سمجھ سکے۔
الف – سماجی اسباب
۱- عمر رسیدگی (بوڑھاپا)
۲- اکیلا رہنا
۳- خاندان کی حمایت اور مدد کا عدم موجودگی
۴- دباؤ کا حالت
۵- خودکشی کے بارے میں مقدس بیانیہ
ب- طبی اسباب
1- شدید ڈپریشن
۲- نشہ آور اشیاء کا استعمال (شراب، چرس، وغیرہ)
۴- پاگل پن (schizophrenia)
۵- شخصیت کی خرابی (personality disorders)
۶- طویل جسمانی بیماریاں
ان اسباب میں چند اہم علتوں کی جانب یہاں بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جن میں پہلے ضروری نکتہ خودکشی کے بارے میں مقدس بیانیہ ہے۔ سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے بڑے ملکوں نے چھوٹے ملکوں اور قوموں کے وسائل پر قبضہ کرنا شروع کیا اور اس جنگ میں بڑی طاقتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سرد جنگ کی برے حالات میں چھوٹے قوموں کو مکمل میکانزم کے ساتھ جنگوں کے دھوکے میں چھوڑ دیا۔ دوسری طرف مذہبی بیانیہ اس طرح پیش کی گئی کہ نوجوانوں کو برین واش کیا گیا کہ ان کی موتیں مقدس ہیں اور ہم نے گذشتہ تیس سالوں میں دیکھا کہ خودکشی ایک مقدس عمل کے طور پر فروغ پایا۔ نائن الیون کا واقعہ بھی خودکشی کے مقدسات کی بنیاد پر گلوریفائی ہوا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ پشتون وطن میں کابل سے لے کر پشاور تک اور چترال سے چمن تک خودکشی کے حملوں کی ایک سلسلہ شروع ہوئی جس کا ابھی بھی تسلسل ہے، افسوس یہ ہے کہ جنگی معیشت پر مبنی ملکوں کے لئے یہ ایک ڈھیر سا سرمایہ ہوا۔ زندگی ہر حال میں مقدس ہے۔ کوئی جنگ اور غبارے کی شدت کے سامنے اپنی زندگی کو خود مقدس بیانیہ کے زور سے چھوڑ دینا کوئی انسانی عمل نہیں ہے۔
دوسرا بڑا سبب شدید ڈپریشن ہے، عام زندگی میں جہاں بخار، سر درد، کھانسی جیسی بیماریاں سمجھی جاتی ہیں، وہاں شدید ڈپریشن کو کوئی بیماری نہیں سمجھا جاتا۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی اس بیماریوں کے حوالے سے کوئی شعور نہیں ہے۔ یہ سرکار یا ریاست کے ترجیحات میں نہیں آتا کہ ذہنی بیماریوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دے اور ان بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لئے مراکز کھولے۔ پرائمری لیول صحت کے سہولیات میں ڈاکٹروں اور عام عملے کو اس عمل پر آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔
خودکشی کے خطرے کی علامات
یہ بھی پڑھیں: بابا، میں اس معاشرے میں زندگی نہیں گزار سکتا، قانون کے طالب کی خودکشی
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ حکومتی سطح پر خودکشی کے بچاؤ کے لئے باقاعدہ کوئی پروگرام موجود نہیں۔ ماہر نفسیات کی کمی اور ماہر نفسیات کے ساتھ معائنے سے خوف کی وجہ سے یہ لوگ جو خودکشی کے مائل ہوتے ہیں اس سہولیات تک پہنچنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ تو ہم سب اپنی اپنی جگہ کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ان کے قریبی لوگوں اور دوستوں کے ساتھ مدد کر سکیں۔ یہ اتنی زیادہ علم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عمومی عقل اور سمجھ کے ساتھ ہم یہ لوگ پہلے پہچان سکتے ہیں اور پھر ان کی زندگی کو جلد محفوظ کر سکتے ہیں۔ میں یہاں آسانی اور علم کے لئے خطرے کی علامات اور نشانیاں لکھتا ہوں تاکہ تمام قاری آسانی سے سمجھ سکیں۔
خودکشی کے خطرے کی علامات اس طرح ہیں:
۱- جب ایک مریض پہلے خودکشی کی کوشش کر چکا ہو، ان لوگوں کو دوبارہ کوشش کرنے کے لئے ہائی رسک سمجھا جاتا ہے، ایسے لوگوں کو نگرانی میں رکھنا چاہیئے اور کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑا جانا چاہیئے۔
۲- وہ لوگ جو بار بار موت کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔
۳- وہ لوگ جو زندگی پر وصیت لکھ چکے ہیں۔
۴- وہ لوگ جو اچانک دوسروں سے الگ ہو جاتے ہیں۔
۵- وہ لوگ جو عام سماجی زندگی میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے خود کو دور کر لیتے ہیں اور کسی رابطے کی کوشش نہیں کرتے۔
۶- وہ لوگ جو سونے میں فرق محسوس کریں، یا تو ان کا خواب بہت زیادہ ہو جائے یا ان کا خواب بہت کم ہو جائے۔
۷- وہ لوگ جو جلد جلد غصہ کرتے ہیں، معمولی باتوں پر ناراض ہوتے ہیں اور یہ تبدیلی عارضی ہوتی ہے۔
۸- زندگی میں کسی بڑی صدمے یا حادثے کا سامنا کریں جیسے نوکری کا جانا، قریبی عزیزوں کا انتقال، محبت اور عشق میں ناکامی۔
۹- وہ لوگ جو خود کو دوسروں پر بوجھ سمجھتے ہیں اور اس بات کا بار بار اظہار کرتے ہیں۔
۱۰- مستقبل میں دلچسپی کا ختم ہونا۔
۱۱- وہ لوگ جو ایسا سوچتے ہیں کہ یہ دنیا فضول ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
۱۲- نشے کی اشیاء کے استعمال کرنے والے لوگ جیسے شراب، چرس وغیرہ۔
۱۳- ناامید ہونے والے لوگ۔
ایک عام آدمی کیسے اس خودکشی کے عمل کو روکے اور انسانی قیمتی زندگی بچائے؟
یہ بالکل بھی مشکل نہیں ہے، سب سے پہلے ان خطرے کی علامتوں کو سمجھنا ہے اور پھر اس انسان کے ساتھ بیٹھنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: https://thenorthernpost.net/law-student-allegedly-commits-suicide-in-peshawar/
پہلا کام یہ ہے کہ اس عمل کو سٹگما سے آزاد کیا جائے اور اس شخص کو یہ سمجھایا جائے کہ ایسے خیالات ہر کسی کے ذہن میں آ سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہمارا رویہ کبھی بھی فیصلہ کن نہیں ہونا چاہیئے۔
تیسرا، ایسے لوگوں کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیئے۔
چوتھا، جلد از جلد ہسپتال لے جانا اور ماہر نفسیات کے پاس بھیجنا چاہیئے، یہ بالکل بھی نظرانداز نہیں ہونا چاہیئے۔

بشکریہ! آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکاٹری

ڈاکٹر ہمدرد یوسف زئی

ایک کنسلٹنٹ سائکاٹریسٹ اور سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ آفسانہ نگار، شاعر اور سماجی متحرک اور خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھتے ہیں

متعلقہ تحریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button