بلاگ

سُن لے ذرا

گلناز کی کہانی: جسے اپنے گھر، پڑھائی اور کرئیر کو اکٹھے لے کر چلنا ہے اور یہ کہانی ہمارے معاشرے کی ہر شادی شدہ لڑکی کی آواز ہے

تحریر: علی ارقم

اپنے کمرے سے تیار ہوکر وہ باورچی خانے میں آئی تو آتش دان کے گرد فرش پر پڑی چوکیوں پر بیٹھے گلدادا یعنی گلناز کے سُسر مکئی کی روٹیاں بنانے کیلئے پیڑے تھپتھپاتی اماں جی یعنی اس کی ساس کو ہنستے ہوئے مسجد کا ایک واقعہ سنا رہے تھے۔
"خالد خان مجھ سے پوچھتا ہے، ‘کیا تمہاری بہو کو سرکاری استادی مل گئی ہے؟ میں نے اسے ایک دو بار گلی کے کونے پر سوزوکی وین میں سوار ہوتے اور اترتے دیکھا ہے۔'”
"ارے واہ بھئی، لوگ سمجھتے ہیں، ہماری بہو سرکاری نوکر لگ گئی ہے.”
میں نے کہا، "نہیں یارا، اس کیلئے تو اسے اپنا بیچلرز پورا کرنا پڑے گا، جو شادی کے بعد ادھورا رہ گیا، پتا نہیں کیوں اسے ادھوری پڑھائی پوری کرنے میں دلچسپی نہیں ہے.”
گلدادا کو سرکاری سکول سے بطور لیب اسسٹنٹ ریٹائر ہوئے تین سال ہو چکے تھے، ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود، بڑے بیٹے سرفراز خان اپنی پڑھائی پوری نہ کرسکے تھے اور بسلسلہ روزگار دبئی چلے گئے تھے.
جانے سے تین ماہ پہلے گلناز سے اس کی شادی کردی گئی تاکہ ذمہ داری کا احساس رہے اور گھر پیسے بھیجتا رہے. گھر تو وہ جیسے تیسے پیسے بھیجتا رہتا تھا لیکن گلناز کو اپنی چھوٹی موٹی ضروریات کیلئے اپنے میکے پر انحصار کرنا پڑتا تھا.
سال سوا سال تو یہ سلسلہ چلا لیکن پھر اسے یہ بات کھلنے لگی، تو اس نے اپنے ماموں کے پرائیویٹ سکول میں بارہ ہزار ماہانہ پر نوکری کرلی.
رخصتی کے وقت اس کی عمر بیس سال اور چند ماہ تھی اور وہ ڈگری کالج میں بی ایس انگلش فرسٹ سمسٹر کی طالبعلم تھی. اس کے سسر نے یقین دہانی کروائی تھی کہ شادی کے بعد اسے تعلیم جاری رکھنے دی جائے گی لیکن اس کے شوہر سرفراز نے شادی کے دوسرے ہی ماہ کہہ دیا کہ اسے گلناز کا کو ایجوکیشن میں پڑھائی کرنا پسند نہیں ہے.
گلدادا نے پہلے تو اپنے بیٹے کی اس بات کی مخالفت کی لیکن پھر بیوی نے کہا کہ میاں بیوی کو آپس میں طے کرنے دو، اسے پڑھنا ہوگا تو شوہر کو منالے گی. یوں گلدادا خاموش ہوگئے، بس کبھی کبھار دبے لفظوں میں کہہ دیتے کہ جانے گلناز نے پڑھائی کیوں چھوڑ دی.
آج گلدادا کی طرف سے اس شان بے نیازی کے دوبارہ اظہار پر گلناز پر جھنجھلاہٹ طاری ہوگئی. لیکن اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نرم رکھتے ہوئے کہا، "جانے لوگ دوسروں کے معاملات میں غیر ضروری دلچسپی لینا، ادھر ادھر تانک جھانک کرنا کب چھوڑیں گے؟”
"اپنے گھر میں تو بات کرتے نہیں، مجال ہے جو حق بات کہہ سکیں.”
اس دوران گلناز کا گیارہ سالہ دیور اعزاز بول پڑا، "بھابھی، محلے میں میرے دوست بھی مجھ سے پوچھتے ہیں،” تمہاری بھابھی سکول میں پڑھانے کیوں جاتی ہے، تمہارے بھائی پیسے نہیں بھیجتے کیا، مجھے بھی برا لگتا ہے.”
اس نے اپنے دیور کو تیز نظروں سے دیکھا، لیکن وہ بولتا رہا،” اس دن میں بھابھی کے ساتھ گھر آرہا تھا، تو میرے دوست نے آواز دی، میں نے آگے سے ڈانٹ دیا کہ دیکھ نہیں رہے میں گھر کی لیڈیز کے ساتھ جارہا ہوں، ایسے میں آواز نہیں دیتے”
اس بات پر گلدادا اور اماں جی نے زور کا قہقہہ لگایا. لیکن گلناز اس بات سے بالکل محظوظ نہ ہوئی اور جانے کیلئے اٹھ گئی،” اماں جی، مجھے دیر ہورہی ہے، سوزوکی پک اپ کرنے آنے والی ہے.”
"اعزازہ، ته هم دا پخې پخې خبرې پرېږده او را پاسه، ګاړى بيا تاته ايسار وي (اعزاز تم بھی اپنی عمر سے بڑی باتیں چھوڑو اور اٹھو، گاڑی پھر کافی دیر تمہارے لیے کھڑی رہتی ہے.”
اسکول پہنچ کر اس کا موڈ بہتر نہیں ہوا، بریک کے دوران ساتھی خواتین اساتذہ کے ساتھ بات چیت کے دوران اس نے بولنا شروع کردیا، "پتہ نہیں یار، روز روز کا یہ سلسلہ تھکا دینے والا ہے.”
"یہاں سارا دن بولتے رہو، چیختے چلاتے رہو، گھر جاکر کر ٹیسٹ کی کاپیاں چیک کرو، دوپہر سے شام تک گھر کے کام بھی کرو. اوپر سے لوگوں کے طرح طرح کے تبصرے بھی سنو”
"دل بڑا کرو یار” ایک ساتھی ٹیچر نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ "لوگ کچھ تو بات کریں گے ہی، اسے دل پر مت لو۔
دوسری ٹیچر نے کہا، چمڑی موٹی رکھو اور کام پر دھیان دو، باقی سب کو نظر انداز کرو، گھر بیٹھے رہنے سے یہ بہت اچھا ہے، ابھی بارہ پندرہ ہزار ملیں گے نا تو ساری تھکان دور ہوجائے گی.”
گلناز خاموشی سے مسکرا دی، لیکن ساتھی خواتین کے ردعمل نے اس کی افسردگی میں اضافہ کر دیا تھا.
گھنٹی بجی، اور زیادہ تر عملہ اپنی کلاسوں کے لیے نکل گیا۔ ثنا وہیں کرسی پر بیٹھ کر اپنی ٹھنڈی چائے کو گھورتی رہی.
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا، اور اسماء اندر داخل ہوئیں۔ وہ ثنا سے چند سال بڑی تھیں، دو مختلف سکولوں میں کلاسز لیتی تھی، وہ اکثر دیر سے آتی، مگر اپنے کام پر خوب گرفت تھی، سو کوئی زیادہ شکایت نہیں کرتا تھا.
"پھر دیر ہو گئی،” اسماء نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنا بیگ اور ہاتھوں میں تھامی نوٹ بکس میز پر رکھ دیں۔ اس نے گلناز کے چہرے پر برستی اداسی نوٹ کی تو ہلکے پھلکے انداز میں کہا، لگتا ہے، دبئی سے کل رات بات نہیں ہوئی؟”
گلناز نے پھیکی سی مسکراہٹ کے بعد کندھے اچکائے اور بات ٹالی، "کچھ نہیں یار، بس ایسے ہی۔”
اسماء اس کے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں۔” میں جانتی ہوں کہ جب ‘کچھ نہیں’ کا مطلب اصل میں ‘کچھ ہے’ ہوتا ہے۔ کیا مسئلہ ہے؟”
گلناز نے ہچکچاتے ہوئے صبح باورچی خانے کی گفتگو، سسر کی باتوں وغیرہ کا ذکر شروع کردیا.
"یار، اب گیارہ سال کا بچہ بھی عمل دخل دے گا اور اپنی پسند ناپسند تھوپنے لگے گا”
اسماء خاموشی سے اس کی پوری بات سنتی رہیں، جب ثنا نے اپنی بات ختم کی، تو اسماء نے ایک لمحے کیلئے خاموش رہنے کے بعد آہستہ سے بولیں۔ "تمہیں پتا ہے، یہ مجھے اپنے ابتدائی دنوں کی یاد دلاتا ہے جب میں نے پڑھانا شروع کیا تھا۔ محلے والے گنتے رہتے تھے کہ میں کتنی بار گھر سے باہر گئی ہوں، میرے کپڑوں پر تبصرے کرتے تھے، اور میری تنخواہ کے بارے میں اندازے لگاتے تھے۔ یہ بہت تھکا دینے والا تھا۔
گلناز محویت سے سنتی رہی، "لوگ کیا کہتے ہیں، یہ ہمارے تمہارے کنٹرول میں نہیں ہے اور نہ کسی کے الفاظ یا رائے کا بوجھ لے کر پھرتے رہنا ہمارے لیے مفید ہے۔”
"اہم بات یہ ہے کہ تم خود کو کیسے دیکھتی ہو۔”
"مگر یہاں مسئلہ صرف باہر کے لوگ کا نہیں ہے،” گلناز نے دھیرے سے کہا۔ "میرے اپنے گھر والے بھی ہیں، بچے بھی ایسا سمجھتے ہیں جیسے کہ میں کچھ غلط کر رہی ہوں.”
"یار، کل کلاں کو میرے شوہر کے کان میں جانے کیا بات پڑے اور وہ ادھر سے پھر فرمان نہ جاری کردے کہ ٹیچنگ بھی بند. ”
اسماء نے سر ہلایا۔ "ہاں،ہاں،یہ بہت مشکل ہے۔ جب یہ باتیں ان لوگوں کی طرف سے آئیں، جن سے تمہارا تعلق ہو”
” مگر یہ بات یاد رکھو— ان میں زیادہ تر لوگ یہ نہیں جانتے کہ تم کس کیفیت سے گزر رہی ہو۔ وہ اپنے محدود تجربے و مشاہدے یا اردگرد کے زیر اثر ایسی بات کر رہے ہیں، وہ تمہاری کیفیت، تمہارے جذبات و احساسات کو نہیں سمجھ سکتے”
گلناز نے تائید میں کہا،”صحیح بات ہے، اس دن پرنسپل ماموں کہہ رہے تھے کہ میں تمہاری صورتحال کو سمجھ سکتا ہوں، میں نے کہہ دیا، "آپ نہیں سمجھ سکتے، آپ گھر کے سربراہ ہیں، بڑے ہیں، مرد ہیں، آپ نےزندگی بھر بلا جھجھک اپنی بات کرنا، اپنی رائے دینا سیکھا ہے، اپنا فیصلہ سنایا بھی ہی اور منوایا بھی ہے.”
"آپ نہیں سمجھ سکتے”
اس بات پر وہ کافی جزبز بھی ہوئے اور کہا، "تمہاری بات ٹھیک ہے، میں ان سب سے نہیں گزرا، جس سے تم گزر رہی ہو، اسی لیے تو میں اپنی بیٹی کو بھی نہیں سمجھا سکتا یا شاید نہیں سمجھ سکتا”
اسماء نے کہا،”سچ کہوں تو یہ ٹھیک ہے۔ انہیں سب کچھ سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔”
گلناز نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا، "پھر بات کرنے کا فائدہ کیا؟”
"اگر کوئی نہیں سمجھتا تو بات کرنے کا مطلب کیا ہے؟”
"بات کرنے کا مقصد کسی کو سمجھانا نہیں ہے،” اسماء نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں سنا جائے، تمہارے اس حق کو تسلیم کیا جائے۔”
"ہمارے تمہارے احساسات اہم ہیں، چاہے کوئی نہ سمجھے، بس کبھی کبھی ہمیں اپنے اردگرد ایسے افراد یا کسی ایک فرد کی ضرورت ہوتی ہے جو بات سنے، بلا روک ٹوک ہمیں سب کہنے دے، کوئی مشورہ نہ دے، فیصلہ نہ سنائے.”
گلناز کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ "اور اگر ایسا کوئی نہ ہو تو؟”
"پھر ایسے چھوٹے لمحے ڈھونڈو جیسے یہ، جن میں تمہیں یہ احساس ہو کہ اس سب میں تم تنہا نہیں ہو” اسماء نے نرمی سے کہا۔” اور خود سے بات کرو، سوچو تم کیا چاہتی ہو، تمہاری ترجیحات کیا ہیں، تم کس حد تک کسی کو عمل دخل کی اجازت دے سکتی ہو، یہ فیصلہ تم نے کرنا ہے.”
گلناز کے چہرے کے تاثرات کافی بدل گئے تھے، تناؤ کی کیفیت دور ہوگئی تھی، اس نے مسکرا کر کہا،”آسان نہیں ہے یہ سب”
"بالکل نہیں”
” کیا یہی حل ہے؟”
” شاید، اس پراسس کا اہم حصہ ضرور ہے.”

یہ بھی پڑھیں: بشری انصاری کی سوشل میڈیا پوسٹ ٹرولنگ کی زد میں آ گئی

ایڈیٹر

دی ناردرن پوسٹ پاکستان ایک ڈییجٹل میڈیا پلیٹ فارم ہے جو خاص کر شمالی پاکستان کی رپورٹنگ اور تحقیقاتی سٹوریز آپ تک لانے کیلئے کوشاں ہے۔ انسانی حقوق، ماحولیات، تعلیم، سماجی مسائل پر خصوصی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ More »

متعلقہ تحریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھئے
Close
Back to top button