تحریر: حفصہ راحیل
پہلے دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش نارمل ڈلیوری کے ذریعے ہوتی تھی یہ بہت عام سی بات تھی. مگر اب پاکستان میں نارمل ڈلیوری کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے اور دن با دن سی سیکشن کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ڈاکٹرز کی جانب سے نارمل ڈلیوری کی بجائے سی سیکشن کو پروموٹ کرنا ہے کیوں کہ سی سیکشن میں ڈاکٹرز کو وقت کم دینا پر پڑتا ہے اور اسکی فیس کی مد میں اسپتال ٹھیک ٹھاک رقم وصول کرتا ہے۔ جبکہ نارمل ڈلیوری میں مریض کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کو بھی محنت درکار ہوتی ہے اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے جبکہ اس کی فیس بھی کم ہوتی ہے آپریشن کے زریعہ ڈلیوری میں بےہوشی یا نیم بے ہوشی کے لیے ریڑھ کی ہڈی میں انجکشن دیا جاتا ہے جس کے باعث اکثر خواتین کمر درد اور جوڑوں میں درد کے علاوہ موٹاپے کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے کئی اور مسائل جنم لیتے ہیں جبكہ نارمل ڈلیوری میں وقتی تکلیف ضرور ہوتی ہے مگر یہ مستقبل میں پیش آنے والی کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
ہاں مگر ایسی حاملہ خواتین جنہیں حمل میں پیچیدگی یا مشکلات کا سامنا ہو یا ضرورت کے تحت آپریشن کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ پہلے زمانے میں نارمل ڈیلیوری کے باعث اکثر خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھیں۔ سی سیکشن کا مقصد ایسی خواتین جنہیں نارمل ڈلیوری کرنے میں خطرہ یا مسائل درپیش ہوں تو محفوظ طریقہ سے بچے کی پیدائش کو ممکن بنانا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: محبت کا سفر
ترقی یافتہ ممالک جیسے یورپ، امریکہ، چائنہ میں آج بھی بچوں کی پیدائش نارمل ڈلیوری کے زریعہ ہی جاری ہے جبکہ پاکستان میں اکثر خواتین نارمل ڈلیوری سے خطرہ محسوس کرتی ہیں اور خود سے بھی آپریشن کی طرف جانا پسند کرتی ہیں۔ گائناکالوجسٹ اور ہسپتال انتظامیہ کو چاہیے کہ ڈلیوری سے پہلے خواتین کے لیے تربیتی کیمپ کا اہتمام کریں اور خواتین کو ڈلیوری میں آنے والی پیچیدگیوں سے اگاہ کریں تا کہ وہ خود کو ان مسائل سے محفوظ رکھ سکیں اور خواتین کا اعتماد بھی بحال ہو سکے اور وہ نارمل ڈلیوری کی طرف راغب ہوں۔ مگر بدقسمتی سے پرائیوٹ ہسپتال اور گائناکالوجسٹ نے اسے اپنا کاروبار بنا رکھا ہے اس بہانے عوام کو دونوں ہاھتوں سے لوٹا جارہا ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہیں جس سے اس گھنونے کھیل کی روک تھام کو ممکن بنایا جاسکے ۔