تحریر: عمران ٹکر
بنوں شہر کے ایک سرکاری اسکول میں بچے پر مبینہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا، جس کے نتیجے میں بچے کی جان چلی گئی۔ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسکول ہیڈ ماسٹر پر الزام ہے کہ اس نے بچے پر تشدد کیا، جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق، مقامی عدالت نے ملزم استاد کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے کمرہ عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ تاہم، بچے کے والد نے ابتدائی طور پر ایف آئی آر درج کرانے سے انکار کیا۔
دوسری جانب، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (DEO) بنوں نے متعلقہ استاد کو معطل کرتے ہوئے فوری انکوائری کا حکم دیا جبکہ ایک کمیٹی تشکیل دیکر ایک دن کے اندر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
اساتذہ کے نفسیاتی تجزیے کی ضرورت
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے کہ اساتذہ کی بھرتی کے وقت ان کا نفسیاتی تجزیہ لازمی قرار دیا جائے۔ اکثر اساتذہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، اور جب وہ مشکل حالات کا سامنا نہیں کر پاتے تو بعض اوقات تشدد پر اتر آتے ہیں۔ ایسے اساتذہ بچوں کی شخصیت بنانے کے بجائے انہیں توڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ہر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس میں ایک ماہرِ نفسیات تعینات کیا جائے جو ماہانہ بنیادوں پر اسکولوں کا دورہ کرکے اساتذہ کا نفسیاتی تجزیہ کرے اور انہیں ضروری معاونت فراہم کرے۔
یہ بھی پڑھیں: رنگین خیالی
تعلیمی ماہرین کی رائے
پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہرِ تعلیم زہیر احمد خٹک کے مطابق، خیبر پختونخوا میں پہلے ہی تقریباً 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر اساتذہ کے تشدد کے ایسے واقعات جاری رہے تو مزید والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ہچکچائیں گے، جس سے تعلیمی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ جدید دور میں بھی تعلیمی اداروں میں تشدد کا ماحول ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
جسمانی سزا: قانون کیا کہتا ہے؟
یونیسیف اور سیو دی چلڈرن کی 2005 کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا میں گھروں میں 28 اور اسکولوں میں 43 اقسام کی سزاؤں کی نشاندہی کی گئی تھی، جن میں تھپڑ مارنا، کان مروڑنا، عجیب و غریب جسمانی مشقیں کروانا (مرغ یا ہوائی جہاز بنانا)، لوہے کی سلاخ، پانی کے پائپ یا بجلی کے تار سے مارنا شامل ہیں۔ بدقسمتی سے، سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ مدارس اور نجی اسکولوں میں بھی جسمانی سزائیں آج بھی عام ہیں۔
خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 کے تحت، اگر کوئی شخص کسی بھی صورت میں بچے کو جسمانی سزا دیتا ہے تو اسے چھ ماہ قید، پچاس ہزار روپے جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
تشدد کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات
جسمانی سزا کے مکمل خاتمے کے لیے ہمیں قانونی، تعلیمی اور سماجی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے سخت قوانین نافذ کیے جائیں جو گھروں، اسکولوں، مدارس اور دیگر نگہداشت و بہبود کے اداروں میں جسمانی سزا پر مکمل پابندی لگائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت، والدین میں شعور اجاگر کرنے اور ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنے جیسے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم بچوں کے تحفظ اور ایک مثبت تعلیمی ماحول کے لیے سنجیدہ فیصلے کریں۔ اگر ہم نے اب بھی اس مسئلے کو نظر انداز کیا تو ہماری آنے والی نسلیں خوف، بداعتمادی اور تعلیمی پسماندگی کا شکار رہیں گی۔