تحریر: منیر خان
پاکستان کے مختلف علاقوں، خصوصاً شانگلہ اور سوات، کے مزدوروں کی حالتِ زار ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ مزدور، جن میں اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا کے غریب اور پسماندہ علاقوں سے ہے، اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کوئلہ کانوں میں گزار کر روزی کماتے ہیں۔ لیکن اس روزگار کی قیمت ان کی جانوں کی صورت میں ادا ہو رہی ہے، اور یہ مسئلہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل بحران بن چکا ہے۔
ماضی قریب میں بلوچستان اور دیگر علاقوں میں پیش آنے والے متعدد کوئلہ کان حادثات نے اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے اور منتخب نمائندے اس اہم مسئلے پر توجہ دینے میں ناکام ہیں۔ حالیہ حادثات میں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی ہلاکتیں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ نہ تو کان کنی کی صنعت میں حفاظتی انتظامات ہیں اور نہ ہی مزدوروں کے حقوق کا تحفظ۔ گزشتہ کچھ دنوں میں مختلف حادثات کے نتیجے میں شانگلہ اور سوات کے کئی مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں درہ آدم خیل، ہرنائی، اور کوئٹہ جیسے علاقوں کے افسوسناک حادثات شامل ہیں۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر کب تک ہمارے مزدور اپنے کام کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے؟ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ سیاستدانوں کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اس طبقے کی حالتِ زار سے کوئی غرض نہیں۔ محض بیانات اور وعدوں کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
مزدوروں کی زندگی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو فوراً حفاظتی قوانین کا نفاذ کرنا ہوگا۔ کوئلہ کانوں میں حفاظتی سازوسامان کی فراہمی، ٹھیکیداری نظام کی نگرانی اور کان کنوں کی تربیت ایسے اقدامات ہیں جو ان حادثات کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اور مستقل کوششیں کرنی ہوںگی۔
صرف شانگلہ اور سوات کے مزدور ہی نہیں، پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، خاص طور پر حیدرآباد، درہ آدم خیل اور پنجاب کے علاقے چھوہ سیدان شاہ میں۔ ان علاقوں کے مزدور بھی سخت حالات میں کام کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی۔ ان مزدوروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے حکومت کو صرف حفاظتی تدابیر ہی نہیں، بلکہ معاشی مواقع بھی فراہم کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنے علاقے میں رہ کر اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔
پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدہ لیں اور اسے حل کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو ہماری قوم کو اس کی سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے، اور ہم اپنے ان محنت کشوں کی قربانیوں کو ضائع ہونے دیں گے جو اپنی جانوں کی قیمت پر ملک کی ترقی میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریں اور انہیں بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور کریں۔ بصورت دیگر، یہ بحران مزید شدت اختیار کرتا جائے گا اور ہمارے معاشی و سماجی ڈھانچے کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: ہرنائی بلوچستان کوئلہ کان مزدوروں کے گاڑی کے قریب دھماکہ، 11 مزدور جاں بحق، متعدد زخمی