تحریر: حفصہ راحیل
لنڈا دار اصل برطانوی خاتون کا نام تھا جو نہایت رحم دل اور دوسروں کی مدد کے جزبے سے سر شار تھیں، جو غریبوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ لہذا انہوں نے اپنے دوستوں کو جمع کیا اور سب سے یہ گزارش کی کہ وہ اپنے پرانے کپڑوں كو جو بیکار پڑے ہیں وه لے آ ئیں تاکہ ان كپڑوں کا سٹال لگا کر غریبوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہ سٹال اتنا مقبول ہوا کہ بہت سے لوگ اپنے کپڑے، جوتے اور گھریلوں اشیاء سٹال میں جمع کروانے لگے اور یہ اسٹال لنڈا کے نام سے جانا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی مارکیٹ میں تبدیل ہوگیا۔ آزادی کے بعد انگریزوں کی یہ روایت رہ گئی ہے اور وقت گزار نے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آئی اور اب ترقی یافتہ ممالک میں چیزیں انکی ایکسپایری ڈیٹ تک ہی استعمال کی جاتی ہیں یا ایک پھر ان لوگوں میں استعمال کے بعد دوبارہ استعمال کرنے کا رجہان نہیں پایا جاتا اور یہ لوگ اپنی اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے غریب ممالک کو امداد کے طور پر بھیج دیتے ہیں۔
آج بھی پاکستان میں لنڈا بازاروں کو زندہ رکھے ہوئے ہے ایک دور تھا جب پاکستان میں لنڈے کی چیزیوں کے استعمال کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ اور بڑھتی مہنگائی نے پاکستان کی عوام کو لنڈے کی چیزوں کے استعمال پر مجبور کردیا اور اب پاکستان کے غریب گھرانوں میں لنڈے کی چیزوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ لنڈے کی چیزوں میں فروخت ہونے والی بڑی تعداد کپڑوں اور جوتوں کی ہے مگر لنڈے میں خواتین کے پرس بھی کافی مقبول ہیں۔ لنڈے میں گرم لحاف ،جیویلری، ہوم ڈیکورشن، اور مشینری کے علاوہ پردوں کی بڑی ورائٹی موجود ہے اسکے علاوہ اب بچوں کے کھلونے اور برتن کی فروخت میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ کرونا وائرس کے بعد اسکی خرید میں کمی واقع ہوئی تھی مگر اب پھر سے اس کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لنڈے کا مقابلہ پاکستان میں تیار شده چیزوں سے کیا جائے تو یہ سامان استعال شدہ تو ہوتا ہے مگر پائیدار اور مضبوط بھی ہوتا ہے اور نئی چیزوں کے مقابلے میں ان کی قیمتیں بھی مناسب ہوتی ہیں یہی وجہ ہے كہ پوش گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اسکا رخ کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: اداكارہ نیلم منیر كا شادی تك كا سفر
موجودہ دور میں مہنگائی نے معصوم بچوں كو کھیلوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ کیوںکہ والدین کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کے باعث دو وقت کی روٹی ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔ مگر لنڈا بازار نے غریب ماں باپ کا بھرم رکھا ہوا ہے۔ بہت سے والدین بچوں کو لنڈے کے سستے کھلونے دلوا کر بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
لنڈے کے سامان کی مانگ میں جو اضافہ ہوتا جارہا ہے اسکی قیمیتں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ آنے والے دور میں خدشا ہے کہ عوام اس سے بھی محروم ہو جائے۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہیے جن سے ان کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پایا جاسکے ۔