خیبر پختونخوا

محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ پر معلومات چھپانے کا الزام، کے پی آئی سی سے رجوع

صحافیوں کو دیے جانے والے ایکریڈیشن کارڈز کے قواعد و ضوابط، شرائط، منظوری کے عمل، فیس، معطلی اور منسوخی کے قانونی پہلوؤں سے متعلق تفصیلات طلب کی

خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈز کے اجرا، تجدید اور منسوخی کے قواعد و ضوابط کو خفیہ رکھنے پرمحکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے خلاف شکایت درج کرادی۔ معروف فری لانس صحافی ڈی جی آئی پی آر کے پبلک انفارمیشن آفیسر کے خلاف خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن (KPIC) سے رجوع کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے رائٹ ٹو انفارمیشن (RTI) ایکٹ 2013 کے تحت درخواست دی تھی، جس میں صحافیوں کو دیے جانے والے ایکریڈیشن کارڈز کے قواعد و ضوابط، شرائط، منظوری کے عمل، فیس، معطلی اور منسوخی کے قانونی پہلوؤں سے متعلق تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ یہ معلومات سیکشن 5 کے تحت عوام کو فراہم کرنا حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے، لیکن مقررہ دس دن کی مدت پوری ہونے کے باوجود ڈی جی آئی پی آر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ محکمہ کی جانب سے معلومات فراہم نہ کرنے پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ کیا حکومت واقعی شفافیت پر یقین رکھتی ہے؟ کیا صحافیوں کے لیے بنائے گئے قواعد خفیہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے؟ اگر نہیں، تو پھر صحافیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے؟محکمہ اطلاعات کی اس طرزِ عمل کے خلاف خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن میں باقاعدہ تحریری شکایت درج کر دی ہے اور درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ فوری طور پر مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔ RTI ایکٹ کی خلاف ورزی پر متعلقہ افسر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔اور محکمہ تمام لازمی معلومات عوام کے لیے خود افشاں رسائی میں دینے کا پابند کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی تاخیر نہ ہو۔اب تک محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ کیا معلومات فراہم کی جائیں گی یا معاملہ مزید طول پکڑے گا؟ نظریں اب خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن پر جمی ہیں کہ وہ اس کیس میں کیا فیصلہ دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور میں خواتین صحافی رشتہ داروں کی حملے میں زخمی

ایڈیٹر

دی ناردرن پوسٹ پاکستان ایک ڈییجٹل میڈیا پلیٹ فارم ہے جو خاص کر شمالی پاکستان کی رپورٹنگ اور تحقیقاتی سٹوریز آپ تک لانے کیلئے کوشاں ہے۔ انسانی حقوق، ماحولیات، تعلیم، سماجی مسائل پر خصوصی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ More »

متعلقہ تحریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button