تحریر: اے وسیم خٹک
رشتے انسانی زندگی کا وہ پہلو ہیں جو ہمیں جذبات، اعتماد، اور محبت کی ڈور میں باندھے رکھتے ہیں۔ مگر آج کا معاشرہ ایک آئینہ ہے، جہاں یہ رشتے اپنی اصلیت اور چاشنی کھو چکے ہیں۔ روزانہ سوشل میڈیا پر نظروں سے گزرتے پوسٹ ایک مشترکہ شکایت کو ظاہر کرتے ہیں: بھائی بہن سے شکوہ کناں ہے، والدین بچوں سے ناراض ہیں، اور بچے والدین کے رویوں پر نالاں۔ ہر طرف بس شکایتوں کا طوفان ہے، اور لگتا ہے کہ محبت اور اپنائیت کے یہ رشتے اب کسی قبرستان کی مانند خاموش اور ویران ہو چکے ہیں۔
یہ المیہ اس وقت اور گہرا ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ رشتے جو کبھی خوشیوں اور غموں میں ساتھ نبھانے کی علامت تھے، آج اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ نفسانفسی، مہنگائی، اور خودغرضی کے سائے نے ان رشتوں میں وہ کھوٹ ڈال دی ہے جو شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ لوگ اب ایک دوسرے کے گھروں میں اس لیے نہیں جاتے کہ محبت یا اپنائیت کا مظاہرہ کریں، بلکہ اگر جاتے بھی ہیں تو یا تو کسی مقصد کے تحت، یا پھر معاشرتی دباؤ کے تحت۔
مہمانوں کی آمد، جو کبھی اللہ کی رحمت سمجھی جاتی تھی، اب بوجھ بن چکی ہے۔ مہمان کے آتے ہی سوچا جاتا ہے کہ اس کی خاطر مدارت کیسے کی جائے گی، اور اگر مناسب خیال نہ رکھا گیا تو لوگ کیا کہیں گے۔ یہی رویہ مہمان نوازی کی اس قدیم روایت کو ختم کر رہا ہے جو ہمارے معاشرتی کلچر کا حصہ تھی۔
اس تبدیلی کے اسباب میں ایک بڑا کردار جدید ٹیکنالوجی کا بھی ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر مواصلاتی ذرائع نے لوگوں کو قریب لانے کا دعویٰ تو کیا، لیکن حقیقت میں دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔ جو محبت اور جذبات ذاتی ملاقاتوں میں جھلکتے تھے، وہ اب ایک اسکرین کے پیچھے دب کر رہ گئے ہیں۔ جذباتی قربت کی جگہ مفاد اور شکایتوں نے لے لی ہے۔
پہلے کے زمانے میں خاندان ایک دوسرے کے لیے جیتے تھے۔ رشتہ داروں کے ساتھ ہر خوشی اور غم بانٹا جاتا تھا۔ کوئی بیمار ہو تو پورا خاندان اس کی دیکھ بھال کے لیے موجود ہوتا تھا۔ بچوں کی شادیاں، تہوار، یا کوئی اور موقع ہو، سب ساتھ ہوتے تھے۔ مگر آج یہ رشتے رسمی اور محدود ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: حنا خواجہ كا یشمہ گل، ہانیہ اور دنانیر کی ڈانس کی ویڈیو پر تنقید
رشتے کی یہ حالت ایک سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے: کیا ہم ان مرحوم رشتوں کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں؟ یقیناً، یہ ممکن ہے، مگر اس کے لیے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے رشتہ داروں کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم بڑے اقدامات کریں، بلکہ چھوٹے چھوٹے اشارے، جیسے کسی کا حال چال پوچھنا، ان کے ساتھ وقت گزارنا، یا چھوٹے تحائف دینا، بھی محبت کا اظہار ہو سکتے ہیں۔
شکایتوں کو معاف کرنے اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیں تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ رشتے محبت، وقت، اور قربانی سے مضبوط ہوتے ہیں، نہ کہ پیسوں یا مقام سے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ہم ایک مثال قائم کر رہے ہیں۔
اگر ہم نے آج رشتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے قدم نہ اٹھایا، تو یہ رشتے ہمیشہ کے لیے مرحوم ہو جائیں گے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی زندگی میں محبت، اپنائیت، اور قربانی کی روایت کو زندہ رکھیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان رشتوں کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور ایک مضبوط، خوشحال، اور محبت سے بھرپور معاشرہ تشکیل دے سکیں۔