گنڈاپور کا آل پارٹیز کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف سخت موقف

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی صدارت میں پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں امن و امان کی صورتحال قبائلی اضلاع کے مسائل اور سیکیورٹی آپریشنز پر تفصیلی غور کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ جن سیاسی جماعتوں نے کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ان کے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں کیونکہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اور مل کر ہی اس کا حل ممکن ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبے کو بدامنی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے بھاری نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اور اب مزید کسی بھی قسم کے آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی کے آپریشنز میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوئیں بلکہ صرف نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ڈرون کارروائیوں سے عام شہری متاثر ہو رہے ہیں لہٰذا دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ "گڈ طالبان” کے تصور کو سختی سے رد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جو عناصر ان کی سرپرستی کر رہے ہیں وہ باز آ جائیں بصورت دیگر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کانفرنس کے اعلامیہ میں فیصلہ کیا گیا کہ قبائلی اضلاع میں مشران اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باقاعدہ جرگے کیے جائیں گے تاکہ پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ضم شدہ اضلاع میں پولیس فورس میں 300 افراد کی بھرتی کی جائے گی تاکہ مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں۔ فاٹا کے مسائل پر بات کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر مذاکرات کرے اور آپریشن و انضمام کے دوران کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ انہوں نے فاٹا پر لگائے گئے ٹیکسز کو بھی مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگست میں اس کا اجلاس بلایا جائے جبکہ مائنز اینڈ منرل کے قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی یا صوبائی اثاثوں پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
علی امین گنڈا پور نے اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر محسن نقوی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ صوبے کے معاملات پر بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے اور صوبائی حکومت کی مشاورت کے بغیر جاری کیے گئے نوٹیفکیشنز آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ مستقبل میں تمام فیصلے باہمی مشاورت جرگہ سسٹم پارلیمنٹیرینز علمائے کرام اور ہر ضلع کے نمائندوں کی شمولیت سے کیے جائیں گے تاکہ ایک پائیدار اور متفقہ حل سامنے لایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی وزیرِ اعلیٰ نے سڑک کو چونا لگانے کی کوشش میں قومی خزانے کو چونا لگا دیا، بیرسٹر سیف



