تحریر: یاسر حمید
بلوچ تاریخ میں نواب اکبر (شہباز) خان بگٹی سے زیادہ روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کا حامل فرد شاید ہی کوئی پیدا ہوا ہو۔ مغربی اعلیٰ تعلیم کی جھلک نواب اکبر بگٹی میں تب تک رہی جب تک وہ لوگوں سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ نجی محفلوں اور عمومی مجلسوں میں بھی جب اکبر خان بگٹی شیکسپیئر کی کہانی اور افسانوں کے تذکرے چھیڑتا تو بڑے سے بڑا دماغ اور ذہن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا اسی بنیاد پر برطانوی ہائی کلچر کے ساتھ اکبر بگٹی کا بڑا یارانہ بھی رہا ہے۔ یورپ کے مشہور صحافی اور مصنف ڈیکلن والش کے ساتھ نواب صاحب کا یارانہ تھا۔ ڈیکلن والش اپنی مشہور زمانہ کتاب "دی نائن لائفز آف پاکستان” میں بھی ان کی اس منفرد صفت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
کہ جب سردار اکبر خان بگٹی سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت پروگریسو شخص نظر آئے , شیکسپئیر , ہائی لٹریچر اور ہائی برٹش کلچر کی باتیں کر رہے تھے باتوں باتوں میں بلوچستان کی روایات پر تذکرہ چھڑ گیا تو ڈیکلن والش کی توقعات کے برعکس انہوں نے روایات کی زنجیر کے ساتھ چمٹنے کو باعث افتخار سمجھا تو کہتے ہیں کہ نواب صاحب نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ایک نوجوان جوڑا تھا جن پر الزام لگا کہ ان کا ناجائز تعلق ہے تو ہوا یہ کہ اُس کے رشتہ داروں نے انہیں پکڑ لیا لڑکے کو اسی جگہ مار دیا گیا اور لڑکی کو یہ اجازت دے دی کہ وہ اپنے گھر واپس چلی جائے لڑکی گھر پہنچتی ہے تو اس کے گھر والوں نےاس کی چادر سے باندھ کر درخت سے لٹکا دیا۔
اکبر بگٹی صاحب نے کہا کہ "کام مکمل ہو گیا عزت بحال ہو گئی”
(The Job was Done , Honor was restored)
بلوچستان کی روایات کے حوالے یہ موقف اور رویہ اکبر خان بگٹی تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ اس کا دائرہ کار ان تمام افراد میں نمایاں نظر آئے گا جو اپنی جدید تعلیم اور نظریات کے باعث بلوچستان میں حقوق کی تحریک چلا رہے ہیں۔
اس کی ایک جھلک کچھ دن پہلے کوئٹہ بلوچستان سے وائرل ہونے والی وڈیو میں نظر آتی ہے
21 جولائی 2025 کو کوئٹہ کے قریب دغاری کے علاقے سے ایک ہولناک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک جوڑے بانو بی بی اور احسن اللہ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے 2008 جعفرآباد پانچ خواتین کو زندہ دفن کر دیا گیا
2021 بلیدہ (تربت) میں ایک خاتون کو "تعلقات” کے الزام میں قتل کیا گیا
گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی شرح کسی المیے سے کم نہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے مطابق
- 2022 میں تقریباً 590 افراد غیرت کے نام پر قتل ہوئے
- 2023 میں یہ تعداد 490 رہی
- 2024 کے صرف 11 ماہ میں 346 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
یہ صرف وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ دیہی علاقوں، قبائلی معاشروں اور پدرشاہی ذہنیت میں جکڑے شہروں میں اکثر ایسے واقعات کو "حادثہ” یا "خودکشی” بنا کر دبا دیا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ مسئلہ پورے ملک میں ہے، مگر بلوچستان کی صورت حال بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ قبائلی روایت، جِرگہ سسٹم اور عورت کو جائیداد کا درجہ دینے والی سوچ نے ظلم کو چھپانے کی مکمل گنجائش دے رکھی ہے۔
- 2020 میں صرف بلوچستان میں 51 افراد غیرت کی بھینٹ چڑھے (Aurat Foundation رپورٹ)، جن میں 33 خواتین اور 18 مرد شامل تھے۔
- 2021 میں HRCP کے مطابق 42 کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گئے۔
- 2022 اور 2023 کے دوران بھی کم و بیش یہی شرح برقرار رہی۔
- 2024 میں HRCP کے مطابق بلوچستان میں 32 کیسز رپورٹ ہوئے، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف ایک کیس میں سزا سنائی گئی۔
عورت فاؤنڈیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ہر سال سرکاری طور پر رپورٹ ہونے والے واقعات بہت کم ہیں کیونکہ زیادہ تر واقعات سماجی دباؤ, عزت و غیرت اور جرگہ سسٹم کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔
نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی ایک رپورٹ کے مطابق 1997 سے 2003 تک پاکستان بھر میں پیش آنے والے آنر کلنگ کے واقعات میں سے 43 فیصد واقعات بلوچستان میں پیش آئے۔
2016 میں قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پارلیمنٹ نے سماجی دباؤ کے تحت غیرت کے نام پر قتل سے متعلق اہم قانونی ترمیم کی گئی جو اس وقت پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا تاکہ اس مسئلے پر ریاست کی گرفت مضبوط ہو سکے۔
2016 کے قانون نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 290، 302، 309، 310، 311، 338E اور 345 میں ترامیم کی۔
1. فساد فی الارض (Fasad-fil-Arz) کی تعریف میں توسیع
دفعہ 311 میں ترمیم کر کے "فساد فی الارض” میں اب وہ تمام قتل شامل کر دیے گئے ہیں جو غیرت کے نام پر کیے جائیں۔
2. دفعہ 302 میں واضح کیا گیا ہے کہ "اگر کوئی قتل غیرت کے نام پر کیا جائے تو اسے سزائے موت یا عمر قید دی جائے گی۔”
3. دفعہ 309، 310 اور 345 میں ترامیم کی گئیں کہ اگر قاتل کو مقتول کے ورثا معاف کر بھی دیں، تب بھی عدالت قاتل کو عمر قید کی سزا دے سکتی ہے۔
4. اور ریاست کو مدعی بنایا گیا اگر قتل غیرت کے نام پر ہو تو اب یہ صرف ورثا کا ذاتی مقدمہ نہیں بلکہ ریاست پاکستان اس مقدمے کو خود دیکھے گی۔
مگر زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل میں ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2 فیصد کیسز میں قاتلوں کو سزا ہوئی باقی کیسسز ختم ہو گئے یا کمزور پڑ گئے وجہ پولیس کا دباؤ ، عدالتی ثبوتوں کے کمی اور پھر معاشرہ بھی خاموش۔
جب ہم اپنے قبیلے، اپنے نظریے یا اپنی جماعت کی وجہ سے ظلم پر خاموش رہتے ہیں، تو ہم انصاف کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی انقلابی سوچ کی حامل ہیں اور بڑی متحرک ہیں اس واقعہ اور رویے پر ان کا کوئی بیان کبھی سامنے نہیں آیا۔
اگر بلوچستان کے دکھ درد رکھنے والوں کو ترقی یافتہ بلوچستان چاہیے اور بلوچستان کو ایک جدید شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو اس تحریک کا آغاز اپنی ذات سے کرنا ہوگا اور سوال اپنے معاشرے سے کرنا ہو گا۔ ایک مظلوم اور ایک وڈیرے کی کم از کم جان کی قیمت برابر ہو۔ یہاں پر ایک اور دوھرا رویہ بھی ہے کہ مسائل کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرایا جاتا ہے اور تعبداری کسی اور کی جاتی ہے۔
بلوچستان کے پاس دو راستے ہیں یا وہ فرسودہ روایات کے ذریعے اپنی عزت بحال کریں یا اپنی تعلیم کے ذریعے۔



