اہم خبریںپاکستان

بنوں میں دو روزہ کتاب میلے کا انعقاد، علم و ادب کی روشنی پھیلانے کی منفرد کوشش

40 سے زائد سٹالز پر کتابیں، خواتین کے لیے خصوصی وقت، مقامی مصنفین کو خراج تحسین — میلے کو سالانہ تقریب بنانے کا اعلان

تحریر : طارق بن نواز

16 اور 17 جون 2025 کو بنوں ڈویژن سٹوڈنٹس فورم اور ضلعی انتظامیہ کے اشتراک سے شہر کے آڈیٹوریم گراؤنڈ میں پہلی بار دو روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر بنوں نے اس میلے کا افتتاح کیا جس میں 40 سے زائد سٹالز سجائے گئے ہیں۔ یہاں کتابوں کے ساتھ ساتھ متنوع سرگرمیوں نے شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ میلہ نہ صرف کتاب دوستی کی ترویج کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ بنوں کی علمی، ادبی اور سماجی شناخت کو اجاگر کرنے کا ایک منفرد پلیٹ فارم بھی ثابت ہو رہا ہے۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب بنوں میں اس طرح کا کتاب میلہ منعقد ہورہا ہے۔

بنوں اپنی زرخیز زمین اور ثقافتی ورثے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ شہر ماضی میں ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے نسبتاً خاموش رہا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سیاسیات کے طالب علم اور پشتون کونسل کے ایجوکیشن سیکرٹری سلمان احساس جو اس میلے کے روح رواں ہیں، نے ٹی این پی اردو کو بتایا ‘بنوں میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ایک فکری پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ یہ کتاب میلہ اسی ضرورت کا جواب ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ یہ میلہ نہ صرف کتابوں تک رسائی فراہم کرے گا بلکہ مقامی طلبہ اور نوجوانوں کو علم اور تحقیق کی طرف راغب کرے گا۔

سلمان احساس کے مطابق میلے کا ایک اہم مقصد بنوں کے ان معزز شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے ماضی میں شہر کی ادبی، سماجی اور عملی شناخت کو عروج بخشا۔ ‘ہم اس میلے کو ان عظیم ہستیوں کے نام کر رہے ہیں جنہوں نے بنوں کو روشن کیا۔ ان کی خدمات کا اعتراف ہماری ذمہ داری ہے۔’ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ میلے کے اختتام پر ایک باقاعدہ تنظیم قائم کی جائے گی جو بنوں ڈویژن میں تعلیم، کتاب دوستی اور فکری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کام کرے گی۔

یہ کتاب میلہ اپنی نوعیت کا پہلا ایونٹ ہے جو نہ صرف کتابوں کی نمائش تک محدود ہے بلکہ کئی دیگر سرگرمیوں کا امتزاج بھی ہے۔ پاکستان بھر سے معروف پبلشنگ کمپنیاں اور کتاب فروش اس میلے میں شرکت کررہے ہیں جہاں سیاسیات، معاشرت، میڈیکل، انجینئرنگ اور حالات حاضرہ سمیت مختلف موضوعات پر کتابیں 30 سے 50 فیصد رعایت کے ساتھ دستیاب ہیں۔

میلے کی ایک نمایاں خصوصیت خواتین کے لیے مختص کردہ وقت ہے۔ ہر روز صبح 11 سے 12 بجے تک خواتین خصوصی طور پر میلے کا دورہ کر سکتی ہیں جو مقامی ثقافت کے تناظر میں ایک انقلابی قدم ہے۔ کمیٹی کے رکن منیر خان نے بتاتے ہیں ‘ہم نے خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے یہ فیصلہ کیا تاکہ وہ بھی علم اور ادب سے مستفید ہو سکیں۔’

اس کے علاوہ بنوں سے تعلق رکھنے والے شعرا، ادیبوں اور مصنفین کی کتابوں کے لیے ایک الگ سٹال قائم کیا گیا ہے۔ منیر خان کے بقول ‘ہم چاہتے ہیں کہ مقامی طلبہ کو پتہ چلے کہ ان کے شہر میں کتنے باصلاحیت لکھاری موجود ہیں۔ یہ سٹال ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔’ میلے میں سٹڈی سرکلز، بچوں کی فکری و اخلاقی تربیت کے لیے کاؤنسلنگ کارنرز اور آخری شام طلبہ کی ذہنی تازگی کے لیے ایک میوزک پروگرام کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

اکرم خان درانی کالج بنوں کے پروفیسر اور مفکر آصف اقبال میلے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں ‘جب کتاب کو میلے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ صرف کتاب نہیں رہتی بلکہ معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ علم کے فروغ کا ایک فعال ذریعہ ہے۔’ انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ سوشل میڈیا نے آج کے طلبہ کو کتاب سے دور کر دیا ہے۔ ‘یہ میلہ ایک جرگہ ہے جو سوشل میڈیا میں گم نوجوانوں کے لیے علم کے دروازے کھولے گا۔ یہ نئے اہل قلم، شعرا اور دانشوروں سے تعارف کا موقع فراہم کرے گا۔’

آصف اقبال نے بنوں کے ادبی ماحول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں شعر و ادب کا ذوق موجود ہے لیکن باہمی رقابت کی وجہ سے ایسے ایونٹس ماضی میں کم ہی دیکھنے کو ملے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا ‘سلمان احساس اور ان کی ٹیم نے ایک نیا ثقافتی تحفہ دیا ہے۔ یہ میلہ مقامی لوگوں کے لیے ایک مثبت کلچر متعارف کرانے کی کامیاب کوشش ہے۔’

منتظمین کا ماننا ہے کہ یہ میلہ بنوں میں کتاب دوستی اور فکری سرگرمیوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ سلمان احساس اس حوالے سے بتاتے ہیں’ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ میلہ سالانہ ایونٹ بنے گا اور بنوں کے طلبہ کو نئی سوچ اور مواقع فراہم کرے گا۔’ منیر خان نے مزید کہا کہ ‘یہ میلہ مقامی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور طلبہ کو مطالعے کی طرف راغب کرنے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔’

کتاب میلہ اپنے دوسرے اور آخری روز کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہنے والے اس میلے میں شہری اب بھی شرکت کر سکتے ہیں۔ مقامی طلبہ، اساتذہ اور اہل علم کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ کتابوں کی اس بزم سے استفادہ کریں اور بنوں کی علمی و ادبی روایت کو آگے بڑھائیں۔ یہ کتاب میلہ نہ صرف بنوں کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے بلکہ پاکستان کے دیگر چھوٹے شہروں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ کس طرح مقامی سطح پر علم و ادب کی ترویج ممکن ہے۔ جیسا کہ آصف اقبال نے کہا ‘یہ میلہ ایک بیج ہے جو بنوں کی زرخیز زمین میں بویا گیا ہے۔ اگر اس کی قدر کی گئی تو یہ ایک تناور درخت بنے گا۔’

یہ بھی پڑھیں: دارالعلوم حقانیہ اور بنوں دھماکوں کے خودکش حملہ آوروں کی شناخت ہوگئی: آئی جی کے پی

ایڈیٹر

دی ناردرن پوسٹ پاکستان ایک ڈییجٹل میڈیا پلیٹ فارم ہے جو خاص کر شمالی پاکستان کی رپورٹنگ اور تحقیقاتی سٹوریز آپ تک لانے کیلئے کوشاں ہے۔ انسانی حقوق، ماحولیات، تعلیم، سماجی مسائل پر خصوصی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ More »

متعلقہ تحریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button