تحریر: یاسرحمید
گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک نہایت افسوسناک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون کو چند مرد گاڑی سے اتار کر لاتے ہیں اور کچھ ہی لمحوں بعد اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ یہ ویڈیو نہ صرف دل دہلا دینے والی ہے بلکہ اس کے ساتھ پھیلائی جانے والی کہانی نے بھی بہت سے لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس ویڈیو کے ساتھ جو تحریر گردش کر رہی تھی، اس کے مطابق لڑکی کا نام "شیتل” اور لڑکے کا نام "زرک” بتایا گیا، جنہیں مبینہ طور پر پسند کی شادی کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ لڑکی نے ہاتھ میں قرآن اٹھا رکھا تھا اور مجمع سے مخاطب ہو کر کہا:
"صرف شم نا اجازت اے نمے”
یعنی: "مجھے صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔”
پھر وہ ایک طرف چل دی اور کچھ ہی لمحوں میں اسے گولیاں مار دی گئیں۔
یہ ویڈیو اور اس کے ساتھ جڑی کہانی بہت تیزی سے وائرل ہو گئی تاہم چند پہلو اس میں شامل نہیں کئے گئے جو بعد میں سامنے آ گئے۔
جب اس واقعے کی حقیقت جاننے کے لیے بلوچستان میں اپنے ایک قابلِ اعتماد ذریعے سے رابطہ کیا، تو کچھ اور حقائق سامنے آئے۔
ذرائع کے مطابق یہ واقعہ
* کوئٹہ کے قریب مارگٹ نامی علاقے میں پیش آیا،
* یہ چند ماہ قبل عید کے دنوں کی بات ہے۔
* خاتون کا تعلق ساتکزئی قبیلے سے ہے، اور وہ شادی شدہ تھی، اس کے بچے بھی ہیں۔
* لڑکے کا تعلق سمالانی قبیلے سے تھا۔
* خاتون اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر اس لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی۔
بعد ازاں خاتون کے شوہر نے اسے مبینہ طور پر معاف کر کے واپسی کی اجازت دے دی۔ تقریباً چالیس دن بعد جب یہ خاتون واپس اپنے علاقے پہنچی، تو اس کے خاندان کے مردوں، خصوصاً بھائیوں، نے اسے اور اس لڑکے کو بلایا۔ خاتون نے اپنے ساتھ قرآن پاک اٹھایا ہوا تھا اور، جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے، اس نے مجمع سے مخاطب ہو کر کہا:
"صرف شم نا اجازت اے نمے”
یعنی: "مجھے صرف گولی مارنے کی اجازت ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔”
اس کے بعد اسے ایک طرف لے جا کر پیچھے سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ بعد میں اسی لڑکے کو بھی گولی مار کر جان سے محروم کر دیا گیا۔
* اس واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی
صحافی روف کلاسرا کی پوسٹ کے مطابق
جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بلوچستان حکومت حرکت میں آئی اور تھانہ حنا کی پولیس کو شائید جمع کرنے اور مقدمہ درج کرنے کے لیے مارگٹ کی جانب روانہ ہوئی۔ پولیس نے قاتلوں کی تلاش شروع کر دی ہے، تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔
یہ واقعہ نہ صرف غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک اور المناک مثال ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ تصدیق کے بغیر کہانیاں پھیلانے میں کس قدر جلد بازی کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی وائرل مواد کو پھیلانے سے پہلے اس کی حقیقت جانچیں، تاکہ افواہوں، فرضی ناموں اور جعلی بیانیوں کو مزید فروغ نہ ملے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کی وائرل ویڈیو پر شہریوں کا شدید غم وغصہ



